English Signature

Handwritten Signature Style

Handwritten Signature Style

فوج میں اظہار رائے کی آزادی
:::::::::::::::::::::::::::::::::

نوجوانوں کی معلومات کے لئے فوج کے نظام سے متعلق ایک اہم چیز عرض کرنے جا رہا ہوں اس سے فوج کے سسٹم میں موجود ایک بہت اچھی روایت سے آگہی آپ کے لئے کار آمد ہوگی۔ فوج کا سربراہ اپنی فورس سے چار قسم کے اجتماعات میں مخاطب ہوکر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ اور یہ چار اجتماعات حسب ذیل ہیں

٭ کور کمانڈرز کانفرنس: اس میں کور کمانڈرز، جی ایچ کیو میں تعینات پرنسپل سٹاف افسران، یعنی کوارٹر ماسٹر جنرل، چیف آف جنرل سٹاف وغیرہ، اور ڈی جیز شریک ہوتے ہیں۔ اس میں ایجنڈے پر چیف صرف ابتدائی بات کرکے خاموش ہوجاتا ہے اور پھر ساری گفتگو کمانڈرز کے بیچ چلتی ہے۔ اس گفتگو میں کمانڈرز کے مابین ایجنڈہ آئٹم کے حوالے سے زبردست قسم کا اختلاف رائے بھی چلتا ہے۔ حتی کہ سخت قسم کی تلخ کلامی بھی بسا اوقات ہوجاتی ہے مگر کسی کو روکا یا ٹوکا نہیں جاتا۔ یہ سب چیف چپ چاپ سن رہا ہوتا ہے۔ کسی کمانڈر کے موقف کے حوالے سے کوئی مزید وضاحت درکار ہو تو چیف سوال ضرور کر لیتا ہے۔ مگر اس کا مرکزی فوکس دوسروں کی سننے پر ہوتا ہے۔ ساری بحث و تمحیص کے بعد چیف اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اور یہ فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے جس کی پوری فوج تعمیل کرتی ہے۔

٭ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس: اس میں کورکمانڈرز، پرنسپل سٹاف افسران، اور ڈی جیز کے علاوہ ڈویژن اور بریگیڈ کمانڈرز بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہاں بحث و تمحیص نہیں ہوتی۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والے کسی اہم فیصلے سے چیف اپنے کمانڈرز کو آگاہ کرکے ان کی رائے مانگ لیتا ہے۔ تمام کمانڈرز بالعموم اس کی توثیق کر دیتے ہیں کیونکہ فیصلہ کور کمانڈرز کانفرنس لیول پر ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چین آف کمانڈ کو چیف بذات خود فیصلے سے آگاہ کرکے اس کی سیریسنس واضح کردے اور بتا دے کہ معمولی سی لاپروائی بھی برداشت نہ ہوگی۔

٭ جونیئر آفسران کی کانفرنس: اس میں کیپٹن سے کرنل رینک تک کے افسران شریک ہوتے ہیں۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ چیف اس میں خطاب کرکے فارغ ہوتا ہے تو پھر سوال و جواب کا سیشن ہوتا ہے۔ جونیئر افسران کو واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کے دل میں کتنا بھی سخت سوال کیوں نہ ہو اسے آپ کتنے بھی تلخ لہجے میں کیوں نہ کریں یہ آپ کی اے سی آر پر درج نہیں ہوگا۔ اس سے آپ کے کیریئر پر رتی برابر فرق نہیں پڑے گا۔ جو آپ کے دل میں ہے اسے زبان پر لائیں۔ یقین جانئے اس کانفرنس میں چیف ایک طرح سے کٹہرے میں نظر آرہا ہوتا ہے۔ اور وہ تب تک یہ سوالات لیتا اور جوابات دیتا جاتا ہے جب تک سب کے سوالات ختم نہ ہوجائیں۔ کیپٹن رینک کے افسران بھی بسا اوقات بہت تلخ لہجے میں سوال پوچھ رہے ہوتے ہیں اور انہیں یہ وارننگ قطعا نہیں دی جاتی کہ آپ چیف سے کس لہجے میں بات کر رہے ہیں ؟ مذکورہ تینوں کانفرنسز جی ایچ کیو میں ہی ہوتی ہیں۔

” دربار: یہ وہ کانفرنس ہے جو مختلف چھاؤنیوں میں ہوتی ہے۔ اس میں چیف کے ساتھ متعلقہ کور کا کور کمانڈر اور اس کور کے ڈویژن و بریگیڈ کمانڈرز بھی ہوتے ہیں مگر اصل شرکاء سپاہی ہوتے ہیں اور مخاطب بھی وہی ہوتے ہیں۔ ان سے بھی چیف پہلے خطاب کرتا ہے اور پھر ان کے ساتھ سوال و جواب کی نشست کرتا ہے۔ اس نشست کے اختتام پر چیف انہی سپاہیوں کے ساتھ پنڈال میں گھل مل جاتا ہے اور ان سے انفرادی گپ شپ بھی کرتا ہے۔ اس گپ شپ میں ہنسی مذاق، لطیفے، شعر شاعری حتی کہ سپاہیوں کی جانب سے چیف کو سیگریٹ یا نسوار کی پیشکش بھی ہوتی ہے 🙂

یہ وہ چار کانفرنسز ہیں جن کے سبب ہماری فوج کی وحدت قائم ہے۔ اور چین آف کمانڈ کبھی کمپرومائز نہیں ہوتی۔ سپاہی سے لے کر تھری سٹار جنرل تک سب کی آراء کھلے دل کے ساتھ سنی جاتی ہیں۔ انہیں کوئی اشکال ہو تو اسے دور کیا جاتا ہے۔ کسی کے دل میں کوئی الجھن ہو تو اسے دل میں نہیں رہنے دیا جاتا۔ سب کو پورا موقع دیا جاتا ہے کہ جو دل میں ہے بے خوف و خطر کہہ ڈالیں۔ لیکن جب یہ کانفرنسز برخواست ہوجائیں تو پھر ڈیوٹی کے دوران کوئی چوں چاں نہیں ہونی چاہئے۔ ڈیوٹی کے وقت فقط ڈیوٹی اور حکم کی تعمیل ہونی چاہئے۔ اور یہی وہ چیز ہے جسے پاکستان آرمی کا ڈسپلن کہا جاتا ہے۔ اور یہ جو کبھی کبھار یہ خبر آتی ہے کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو فوج میں موجود بے چینی سے آگاہ کیا، یہ انہی چار قسم کی کانفرنسز کا نچوڑ ہوتا ہے۔

About the author

Signature-Creator

1,097 Comments

Click here to post a comment